تخلیق ہوا ہی نہیں پیکر کوئی تم سا اللہ سا کوئی نہ پیمبر کوئی تم سا
تاریخ کے صفحات بھی دکھلا نہیں سکتے میدان سی تنہائی میں لشکر کوئی تم سا
اُتنا ہی طلب گار ہوں تم جتنے سخی ہو مجھ سا کوئی پیاسا نہ سمندر کوئی تم سا
احساس کو بینائی کی توفیق بھی دے دو اشکوں سے سمٹتا نہیں منظر کوئی تم سا
افلاک بھی دیکھیں تمہیں سر اوپر اٹھا کر دیکھا نہ بلندی نے قد آور کوئی تم سا
سننے چلے آتے ہیں علوم فلک و فرش تقریر کرے جب سرِ منبر کوئی تم سا
کہنے کو تو کہتے ہیں سبھی نعت مظفر کم کم نظر آتا ہے ثنا گر کوئی تم سا