Shaha Do Jahan Mein Hai

شاہا دوجہاں میں ہے شہرہ تری رحمت کا ہر ذَرَّہ ثنا خواں ہے مولیٰ تری رِفعت کا



کچھ صرف غلاموں کی تخصیص نہیں اس میں کفار نے بھی پایا صدقہ تری رحمت کا



ہم بھول گئے تجھ کو تو نے نہ کبھی چھوڑا کس منہ سے کریں پھر ہم دعویٰ تری چاہت کا



خود اُمتی بننے کی مالک سے تمنا کی موسیٰ نے سنا جس دَم رُتبہ تری اُمت کا



مخلوقِ الٰہی ہے شیدا تو تعجب کیا جب خود ترا خالق ہے پیارا تری صورت کا



اس سر کی سراَفرازی عالم سے بیاں کیا ہو جس سر پہ رکھا حق نے تاج اپنی نیابت کا



دربارِ عدالت میں ہوتا جو نہ تو حامی غرقاب ہی ہوجاتا بیڑا تری اُمت کا



ہم تیرے سوا کس سے فریاد کریں اپنی ذِمہ تو لیا تو نے اُمت کی حمایت کا



پڑتی ہے نظر سب کی آقا ترے دامن پر اُٹھتا ہے تری جانب منہ ساری ہی خلقت کا



میدانِ قیامت میں جتنے بھی کھڑے ہوں گے منہ حشر میں دیکھیں گے پیاری تری اُمت کا



اللہ تعالیٰ کو اس بزمِ قیامت میں منظور دکھانا ہے سب کو تری عزت کا



کیا غم ہے غلاموں کو گھبراتے ہیں کیوں عاصی سردارِ مَدینہ جب دولہا ہے شفاعت کا



فہرست کھلی جس دَم جنت میں پہنچنے کی پہلے ہی نکل آیا نمبر تری اُمت کا




Get it on Google Play



اِک آن میں دھو دینا عصیاں کے سیہ نامے ادنیٰ سا کرشمہ ہے اس چشم عنایت کا



صدیق و عمر دونوں بھیجیں گے غلاموں کو جس وقت کھلے گا دَر مولیٰ تری جنت کا



یہ حکمِ مَلِک ہوگا مَالِک سے کہ اے مَالِک باقی نہ رہے کوئی محبوب کی اُمت کا



سب اَہل مَعاصی کے جب وَزْن ہوئے عصیاں ان سب پہ ہوا بھاری پلہ تری رحمت کا



ہے ناز فقط ہم کو آقا کی شفاعت پر توشہ تو نہیں کچھ بھی پاس اپنے عبادت کا



دَربارِ عدالت میں اللہ سے کہہ دوں گا دیدے تو صلہ مجھ کو محبوب کی مِدحت کا



دونوں ہوں بہم یکجا کعبہ بھی مَدینہ بھی گر کعبۂ دِل میں ہو نقشہ تری تربت کا



پھر قلب میں بندوں کے اِک زَلزلہ پیدا ہو گر ذِکر سنائیں ہم شاہا تری شوکت کا



زُنَّار و صنم توڑے اِیماں کے دیئے توڑے اعلان کیا تم نے جس وقت رِسالت کا



سورج تو پلٹ آیا اور چاند بنائے دو صرف ایک اشارہ تھا اَنگشتِ شہادت کا



فرزندوں کو جابر کے اِک آن میں جاں بخشی قدرت تو دکھانی تھی اور نام تھا دعوت کا



بندوں کو دیا سب کچھ فاقوں پہ گزاری خود وہ طور سخاوَت کا یہ حال قناعت کا



اَعدا نے تو اِیذا دی مولیٰ نے دُعا یوں کی دِکھلا دے انہیں یارب رَستہ تو ہدایت کا



جب قبر میں دیکھوں گا کہہ دوں گا یہ آقا سے یاں کھینچ کے لایا ہے اَرمان زِیارت کا



بوجہل کو شان ان کی کس طرح نظر آتی کذاب کی آنکھوں پر پردہ تھا ضلالت کا



سنی کی زباں پر تو ہے ذِکرِ نبی ہر دَم نجدی کا وَظیفہ ہے یہ شرک یہ بدعت کا



کیوں ناز جمیلؔ اپنی قسمت پہ نہ ہو مجھ کو اس نور کا بندہ ہوں مَظْہَر ہے جو وَحدت کا

Get it on Google Play

midhah-logo-grey© 2025 Midhah