سارے عالم میں تِرا راج مدینے والے فخرِ اُمت، مرے سرتاج مدینے والے
کل تلک تابِ شکیبائی کہاں سے لاؤں کیجیے دیدار عطا آج مدینے والے
تِری نسبت کے تقاضوں کو نبھاؤں کیسے؟ خود ہی رکھیےگا مری لاج مدینے والے
جو کُھرچ دیتا ہےزنگار دلوں سے کالک سنگِ در ہے ترا وہ ساج مدینے والے
اپنی کملی میں چھپا کرمجھے روزِ محشر ڈھانپ لیجےگا مرے پاج مدینے والے
در پہ بٹتے ہوۓ گنجینے لیےشاہوں نے سب سخی ہیں ترے محتاج مدینے والے
تیری توصیف ہو الطافؔ کے لب پر جاری ہو یہی کام یہی کاج مدینے والے