سر پر غلامی کی دستار باندھوں تن پر محمؐد کے رنگ پہنوں دست طلب کے رکھوں بند ڈھیلےٗ پیروں میں زنجیرِ تنگ پہنوں
شفّاف ایسی طبیعت ہے اپنی میلا بدن بھی گوارا نہیں کپڑے تو کپڑے ہیں میں روح پر بھی نکھرا ہوا انگ انگ پہنوں
گھٹتے ہوئے فاصلوں کی مدد سے بڑھتا رہے میرا شوق سفر پہنائیں جب ان کے رستے کے جھونکے خوش ہو کے احرام سنگ پہنوں
سب سے بڑا نفس دشمن ہے میرا سر کوبی نفس کے واسطے تنہائیوں میں بھی اکثر میں آقاؐ پوشاکِ میدان جنگ پہنوں
باہر نکل آئے اندر کا چہرہ تو آئنہ مجھ پہ ہنسنے لگے کر دو مرے دیدہ دل بھی صیقل کب تک گناہوں کا زنگ پہنوں
حسرت سے لعل و گہر مجھ کو دیکھیں رعنائیاں رشک مجھ پر کریں تقوے میں صبر و قناعت پرو کر میں مصطفؐےٰ کا ملنگ پہنوں
مارے ہیں کتنے ملامت کے پتھر پھر بھی نہ آقاؐ کے لائق ہوا کیا ٹوٹے پھوٹے بدن پر مظفر اب جامہء نام و ننگ پہنوں