مر کے اپنی ہی اداؤں پہ امر ہو جاؤں اُن کی دہلیز کے قابل مَیں اگر ہو جاؤں
اُن کی راہوں پہ مجھے اتنا چلانا یارب کہ سفر کرتے ہوئے گردِ سفر ہو جاؤں
زندگی نے تو سمندر میں مجھے پھینک دِیا اپنی مُٹّھی میں وہ لے لیں تو گُہر ہو جاؤں
میرا محبوب ہے ، و ہ راہبرِ کون و مکاں جس کی آہٹ بھی مَیں سُن لُوں تو خضر ہو جاؤ ں
اِس قدر عشقِ نبی ہو کہ مِٹا دُوں خود کو اِس قدر خوفِ خدا ہو کہ نڈر ہو جاؤں
ضرب دوں خود کو جو اُن سے تو لگوں لا تعداد وُہ جو مُجھ میں سے نِکل جائیں ، صِفر ہو جاؤں
آرزو اب تو مظفؔر جو کوئی ہے تو یہ ہے جتنا باقی ہُوں ، مدینے میں بسر ہو جاؤں