سعادت اب مدینے کی عطا ہو کرم چشمِ کرم یامصطَفٰے ہو
مدینے کی بہاریں دیکھنے کی اجازت مَرحَمت اب تو شہا ہو
وہ لمحاتِ مَسرَّت آئیں پھر سے مِرے پیشِ نظر گُنبد ہرا ہو
سدا دل عشق میں تڑپا کرے اور یہ تار اَشکوں کا آنکھوں سے بندھا ہو
سُنہری جالیوں کے رُوبرو کاش مِرا جلووں میں اُن کے خاتِمہ ہو
مرے آقا! برائے پیر و مرشد بقیعِ پاک میں مدفن عطا ہو
جب آقا قبر میں جلوہ نُما ہوں تو لب پر مرحبا یا مصطَفٰے ہو
مَحَبّت مال کی چُھٹتی نہیں ہے کرم! دنیا سے میرا دل بُرا ہو
میں ایسا عاشقِ صادِق بنوں کاش ہنسی لب پر رہے دل رو رہا ہو
گناھوں کے سبھی اَمراض ہوں دور عطا میرے طبیب ایسی دوا ہو
کلیجے سے لگاتے ہیں اُسے بھی جسے ہر ایک نے ٹھکرا دیا ہو
پڑوسی خُلد میں اپنا بنا لو کرم آقا پئے احمد رضا ہو
جگہ جنّت میں قدموں میں وہ دینا جہاں پر مرشِدی احمد رضا ہو
مِری قسمت کی جتنی گُتّھیاں ہیں سُلَجھ سکتی ہیں آقا تُم جو چاہو
عَدُو اُس کا بگاڑے گا بھلا کیا محمد مصطَفٰے کا جو گدا ہو
عنایت دین پر ہو استِقامت مِری مقبول یارب یہ دعا ہو
خدایا واسِطہ میٹھے نبی کا شَرَف عطارؔ کو حج کا عطا ہو