روح نے اللہ سے عشقِ پیمبر لے دیا اور پیمبرؐ نے مجھے فردوس میں گھر لے دیا
کس قدر آرام ملتا ہے خدا کی یاد میں پھر نہ آئی نیند اسے جس کو یہ بستر لے دیا
پیار کا پرچم تھما کر ہاتھ میں تلوار دی بزدلی نیلام کر کے زرہ بکتر لے دیا
آگہی ایماں محبت عدل تقویٰ سادگی زندگی کو کس قدر انمول زیور لے دیا
خاک پر جو بیٹھتا تھا اُس جلیل القدر نے کمتری کو عزتیں پستی کو منبر لے دیا
پیاس محشر کی نہ جب برداشت مجھ سے ہوسکی رحمتوں نے شافعِ محشر سے کوثر لے دیا
دینے والا اس قیامت کا کوئی دیکھا نہیں میں نے جو مانگا نہیں وہ بھی مظفر لے دیا