رہی عمر بھر جو انیسِ جاں وہ بس آرزوئے نبی رہی کبھی اشک بن کے رواں ہوئی ، کبھی درد بن کے دبی رہی
شہ دیں کے فکر و نگاہ سے مٹے نسل و رنگ کے فلسفے نہ رہا تفاخرِ منصبی ، نہ رعونتِ نسبی رہی
سرِ دشتِ زیست برس گیا ، جو سحابِ رحمتِ مصطفے نہ خرد کی بے ثمری رہی ، نہ جنوں کی جامہ دری رہی
تھی ہزار تیرگی فتن ، نہ بھٹک سکا مرا فکر و فن مری کائناتِ خیال میں نظرِ شہِ عربی رہی
وہ صفا کا مہرِ منیر ہے ، طلب اس کی نورِ ضمیر ہے یہی روزگارِ فقیر ہے ، یہی التجائے شبی رہی