دے تبسم کی خیرات ماحول کو، ہم کو درکار ہے روشنی یا نبیؐ ایک شیریں جھلک ایک نوریں ڈلک، تلخ و تاریک ہے زندگی یا نبیؐ
اے نویدِ مسیحا! تری قوم کا حال عیسیٰ کی بھیڑوں سے ابتر ہوا اس کے کمزور اور بے ہنر ہاتھ سے چھین لی چرخ نے برتری یانبیؐ
کام ہم نے رکھا صرف اذکار سے، تیری تعلیم اپنائی اغیار نے حشر میں منہ دکھائیں گے کیسے تجھے ہم سے ناکردہ کار امتی یا نبیؐ
دشنِ جاں ہوا میرا اپنا لہو، میرے اندر عدو میرے باہر عدو ماجراۓ تحیر ہے پرسیدنی صورت حال ہے دیدنی یا
سچ مرے دور میں جرم ہے عیب ہے جھوٹ فنِ عظیم آج لاریب ہے ایک عزاز ہے جہل و بے رہروی، ایک آزار ہے آگہی یا نبیؐ
راز داں اس جہاں میں بناؤں کسے، روح کے زخم جا کر دکھاؤں کسے غیر کے سامنے کیوں تماشا بنوں کیوں کروں دوستوں کو دکھی یا نبیؐ
زیست کے تپتے صحرا پہ شاہِعربؐ تیرے اکرام کا ابر برسے گا کب کب ہری ہوگی شاخ تمنا مری، کب مٹے گی مری تشنگی یا نبیِؐ
یا نبیؐ اب تو آشوبِ حالات نے تیری یادوں کے چہرے بھی دھندلا دیے دیکھ لے تیرے تائب کی نغمہ گری بنتی جاتی ہے نوحہ گری یا نبیؐ