شوق و نیاز و عجز کے سانچے میں ڈھل کے آ یہ کوچۃ حبیب ہے، پلکوں سے چل کے آ
امت کے اولیا بھی ادب سے ہیں دم بخود یہ بارگاہِ سرورِ دیں ہے، سنبھل کے آ
آتا ہے تو جو شہر رسالت مآب میں حرص و ہواکے دام سے باہر نکل کے آ
ماہِ عرب کے آگے تری بات کیا بنے اے ماہتاب روپ نہ ہر شب بدل کے آ
سوز و تپش سخن میں اگر چاہتا ہےتو وشق نبی ﷺ کی آگ سے تائب پگھل کے آ