خواب میں در کھلا حضوری کا کیا وسیلہ بنا حضوری کا
اک کسک جب مجھے نصیب رہی وہ بھی تھا مرحلا حضوری کا
جیسے جیسے ہوئی پذیرائی شوق بڑھتا گیا حضوری کا
کیف میں ڈوبتے گۓ شب و روز دَور ایسا چلا حضوری کا
روۓ انور خیال سے گزرا بابِ روشن کھلا حضوری کا
آنسوؤں کے چراغ جل اٹھے جشن برپا پوا حضوری کا
میرے دل میں جو داغِ حسرت تھا بن گیا آئینہ حضوری کا
پیروی ہےحضورؐ کی یا ہے سفرِ جانفزا حضوری کا
ان کے در پر نصیب ہوتا ہے حاضری میں مزا حضوری کا
لاکھ حائل غمِ زمانہ ہوا کارواں کب رُکا حضوری کا
ختم ہوگا نہ بعدِ محشر بھی عملِ ارتقا حضوری کا
دل کا سب درد کر بیاں اس میں نعت ہے سلسلہ حضوری کا
حاصلِ زندگی سمجھ تائب لمحۂ دلکشا حضوری کا