قیامت ہے اب انتظار مدینہ الہٰی! دکھا پھر دیار مدینہ
مری روح آئینہ دارِ مدینہ مرے دیدہ و دل نثارِ مدینہ
اِسی آرزو میں مٹا جا رہاہوں مری خاک ہو ہمکنار مدینہ
شفاعت مسلم، جو مل جاۓ مجھ کو پۓ دفن، قرب و جوار مدینہ
ستم کا نشانہ مری زندگی ہے کرم کی نظر شہریار مدینہ
معطر ہوئی جاں، کھلا غنچۃ دل چلی جب نسیم بہارِ مدینہ
یہ دوری نہیں، حد پاس ادب ہے اِدھر میں ، اُدھر تاجدارِ مدینہ
پیا تھا بس اک جام اس میکدے سے نہیں ٹوٹتا اب خمار مدینہ
تصور میں ہے آمد و رفت شاہ کی کھڑا ہوں سرِ رہگزار مدینہ
اُسے مل گئی دین و دنیا کی دولت ہوا جو دل سے خواستگار مدینہ
لگا لوں گا آنکھ سرمہ سمجھ کر اگر ہاتھ آۓ غبارِ مدینہ
اُبھرنے کوہیں سبز گنبد کے جلوے ذرا صبر اے بیقرار مدینہ
نصیر اپنی کوشش نہیں کام آتی بلاتے ہیں خود تاجدارِ مدینہ