شاہانِ جہاں کس لئے شرمائے ہوئے ہیں کیا بزم میں طیبہ کے گدا آئے ہوئے ہیں
ملتی نہیں دل کو کسی پہلو بھی تسلی لمحاتِ حضوری ہے کہ تڑپائے ہوئے ہیں جنت کی بہاریں انھیں بہلا نہ سکیں گی جو آپ کی گلیوں کی ہوا کھائے ہوئے ہیں
یہ شہرِ مدینہ ہے کہ اک کشش آباد محسوس یہ ہوتا ہے کہ گھر آئے ہوئے ہیں اس وقت نہ چھیڑ اے کشش لذتِ دنیا اس وقت میرے دل کووہ یاد آئے ہوئے ہیں
حاجت نہیں جنبش کی یہاں اے لبِ سائل وہ یوں بھی کرم حال پہ فرمائے ہوئے ہیں سلطانِ مدینہ کی عطا اور یہ عاصی کچھ لوگ تواس بات پہ چکرائے ہوئے ہیں
ہنگامۂِ محشر میں کہاں حبس کا خدشہ گیسو شاہِ کونین کے لہرائے ہوئے ہیں
بن جائے گی محشر میں نصیرؔاب تری بگڑی سرکار شفاعت کے لئے آئے ہوئے ہیں