نور ہی نور ہے، دیکھو تو انسان لگے پڑھنے لگ جاؤ جو اس کو تو وہ قرآن لگے
اُسکی ہر بات ہے احکامِ الہٰی کی طرح کرو ایمان کی تشریح تو ایمان لگے
اس کو چاہا اُسے سوچا اُسے سمجھا ہے بہت عدل ہی عدل ہے احسان ہی احسان لگے
اُس کے ہاتھوں کے نشاں ڈھونڈھنا پتواروں پر خود بخود ناؤ کنارے پہ اگر آن لگے
ہم کو آتی ہے ہر اک پھول سے اسکی خوشبو زندگی اس کے خیالات کا گلدان لگے
اسکی آوازِ قدم پر ہوئی دنیا تعمیر وہ کہیں غار حرا اور کہیں فاران لگے
رائے کیا اپنے ہی بارے میں مظفر دے گا لوگ کہتے ہیں کہ اس دور کا حسّان لگے