نگاہ تیری چراغ بانٹے جمال نکہت فشاں ہے تیرا نسب ترا نورِ کبریا ہے لقب شہِ دو جہاں ہے تیرا
خدا نے ہم سے خطاب چاہا تو تجھ کو اپنی زبان دیدی گواہِ گویائی علم تیرا عمل ثبوت بیاں ہے تیرا
کہاں کہاں ہیں ترے ٹھکانے ترے مراتب خدا ہی جانے زمین بھی ہے تری قدم بوس لامکاں بھی مکاں ہے تیرا
شریعت کبریا کی تشریح صاف و سادہ حیات تیری پڑھا ہے قرآن بھی جو ہم نے پتہ چلا ترجماں ہے تیرا
رضائے حق ہے تری نظر میں بہشت رہتی ہے تیرے گھر میں صدا سے اعلیٰ تری خموشی یقیں سے بالا گماں ہے تیرا
ترے سفینے میں بیٹھ کر آخرت کا ہم نے سفر کیا ہے ہوا کو جو اس کا رخ بتائے وہ پردہء بادباں ہے تیرا
تو کتنا چاہے ہر امتی کو پناہ دیتا ہے ہر کسی کو ہے تیرا دارالسلاّم مکہ مدینہ دارالاماں ہے تیر ا
مظفر وارثی کی دنیا و دین وابستہ ہیں وہیں سے وہ فرش جس پر تری کمر ہے وہ عرش گنبد جہاں ہے تیرا