نگاہ مصطفیٰ کی جدھر ہو رہی ہے ادھر ہی خدا کی نظر ہو رہی ہے
وہ خاطر میں لاتے نہیں بادشاہی ترے در پہ جن کی بسر ہو رہی ہے
تصور میں لمحات لا کر تو دیکھو بلالی اذاں سے سحر ہو رہی ہے
ثنا خوانیِ مصطفیٰ کی کی بدولت ثنا خواں تیری قدر ہو رہی ہے
تڑپتے ہوئے جو سکوں مل رہا ہے تڑپنے کی ان کو خبر ہو رہی ہے
ہے رشک ملائک جو آقا کے در پر مری زندگانی نذر ہو رہی ہے
میں ہر شب تری راہ تکتا ہوں آقا جدائی کیوں آخر امر ہو رہی ہے
عجب درد ہے یہ جدائی کا افضؔل بچھڑتے ہوئے آنکھ تر ہو رہی ہے