نہ کوئی رُسوخ و اَثر چاہیے فقط تیری سیدھی نظر چاہیے
زمانہ کی خوبی زمانے کو دے مجھے صرف دردِ جگر چاہیے
رہے جس میں عشقِ حبیبِ خدا وہ دل وہ جگر اور وہ سر چاہیے
کوئی راج چاہے کوئی تخت و تاج مجھے تیرے پیارے کا در چاہیے
بنے جس میں تقدیر بگڑی ہوئی الٰہی مجھے وہ ہنر چاہیے
ہیں دنیا میں لاکھوں بشر پر وہاں خبر کے لئے بے خبر چاہیے
خزانے سے رب کے جو چاہو سو لو نبی کی غلامی مگر چاہیے
دعائیں توسالکؔ بہت ہیں مگر اثر کے لیے چشمِ تر چاہیے