میری میت پہ یہ احباب کا ماتم کیا ہے شور کیسا ہے یہ اور زاریٔ پیہم کیا ہے
وائے حسرت دم آخر بھی نہ آکر پوچھا مدعا کچھ تو بتا دیدۂ پر نم کیا ہے
کچھ بگڑتا تو نہیں موت سے اپنی یارو ہم صفیرانِ گلستاں نہ رہے ہم کیا ہے
ان خیالات میں گم تھا کہ جھنجھوڑا مجھ کو ایک انجانی سی آواز نے اک دم کیا ہے
کون ہوتا ہے مصیبت میں شریک و ہمدم ہوش میں آ یہ نشہ سا تجھے ہر دم کیا ہے
کیف و مستی میں یہ مدہوش زمانے والے خاک جانیں غم و آلام کا عالم کیا ہے
ان سے اُمید وفا ہائے تری نادانی کیا خبر ان کو یہ کردارِ معظم کیا ہے
وہ جو ہیں ہم سے گریزاں تو بلا سے اپنی جب یہی طورِ جہاں ہے تو بھلا غم کیا ہے
میٹھی باتوں پہ نہ جا اہل جہاں کی اخترؔ عقل کو کام میں لا غفلت پیہم کیا ہے