میری آنکھوں میں اس کا لہو آگیا اے نمازو مجھے بھی وضو آگیا
تشنگی سب کے ہونٹوں پہ جمنے لگی قافلہ جب سر آبجو آگیا
لے کے ہمراہ کتنی بڑی فوج کو کل بہتر سے لڑنے عدد آگیا
خیمہء گل سے شعلے نکلنے لگے کیا کوئی قاتل رنگ و بو آگیا
ہار کر بھی ہوئی فتح مظلوم کی ظالموں کے وہ جب روبرو آگیا
آنسوؤں نے مرے جب بھی آواز دی کربلائے تصور میں تو آ گیا
معصیت چیخ اٹھی میں چلی میں چلی لب پہ جب اللہ ہو اللہ ہو آگیا
بولے سن کر مظفر کو ابن علی کون یہ شاعر خوش گلو آگیا