مرے کام آگئی زندگی مجھے تو ملا تو خدا ملا ہوا آنسوؤں میں جو غوطہ زن تو سمندروں سے میں جا ملا
نہ ادھر گئی نہ ادھر گئی یہ نگاہ تجھ پہ ٹھہر گئی مجھے جب تلاش کیا گیا تیرے راستے میں پڑا ملا
تھا وجود تیرا عدم میں بھی تری دھڑکنیں ہیں حرم میں بھی تری ڈور ہاتھ میں آگئی تو حقیقتوں کا سرا ملا
در مصطفؐےٰ پر گرا تھا میں جب اٹھا تو بدلا ہوا تھا میں جو کبھی ہوا ہی نہ تھا ہوا، جو کبھی ملا ہی نہ تھا ملا
دیا ساتھ شو ق رسائی نے تو چمک اٹھے مرے آئنے تری نعت آئی زبان پر تو جمال حرف و نوا ملا
مرے اردگرد کے اژدہے مجھے رہن خوف نہ کرسکے کبھی تو جو مو سیٰ کے ہاتھ میں مجھے آپ سے وہ عصا ملا
اسے اور کوئی طلب نہ تھی وہی تھا مظفر وارثی وہ جو اک فقیر سا عمر بھر ترے در پہ بیٹھا ہوا ملا