میرے دل میں ترے قدموں کے نشاں ملتے ہیں ایسے مہتاب اندھیروں کو کہاں ملتے ہیں
کھیلتے ہیں ترے آنگن میں خدا کے اسرار جس پہ کھل جائیں اسے دونوں جہاں ملتے ہیں
جب بھی چپ ہوتا ہوں آجا تا ہے ہونٹوں پہ درود اکثر اوقات محمدؐ مرے ہاں ملتے ہیں
داغ داغ اپنا بدن لے کے کہاں جاؤں گا ان کی گلیوں میں تو شیشے کے مکاں ملتے ہیں
ان کے عشاق میں دیوانوں میں درباریوں میں اہل دل اہل نظر اہل زباں ملتے ہیں
بند آنکھوں سے انھیں دیکھ لیا کرتا ہوں خون کی طرح رگ و پے میں رواں ملتے ہیں
جس کے پاس ان کی محبت کے کھرے سکے ہوں چند سکوں میں اسے کون و مکاں ملتے ہیں
روک لیتے ہیں مظفر جو گناہوں سے مجھے میرے اندر ہی کچھ ایسے نگراں ملتے ہیں