مرا پیمبرؑ مجنوں کا حسیں پیکر
نکل کے تنہائیِ حرا سے امین و صادق کے تمغہ ء عرفیت سجا کر
زباں میں اقراء کا شہد بھر کر ہجوم میں تلخیوں کے آیا
گھٹائیں رحمت کی اوڑھ کر دھوپ کی غضب شدتوں میں آیا
جو قوم لات و منات و عزہ کو پوجتی تھی خدائے مردہ کو پوجتی تھی
وہ اپنے ہاتھوں میں سنگ لے کر مرے پیمبر کی سمت دوڑی
مگر مرا رحم دل پیمبرؐ لہو کے پیاسوں پہ بھی دعائیں اچھالتا تھا
وہ سنگ زادوں سے ، آئینہ ساز ڈھالتا تھا وہ ریگ صحرا سے میٹھے چشمے نکالتا تھا
رسولؐ شور مخاصمت میں بھی چپ نہ رہتا وہ سب سے کہتا
یہ بت نہ پوجو یہ صرف پتھر ہیں
یہ عدد بھی نہیں صفر ہیں تمہارے ہاتھوں کا یہ ہنر ہیں
خدا ہے وہ جس سے میں تعارف کرا رہا ہوں خدا ہے وہ جس کی تم ہو تخلیق
اسی کو جانو اسی کو مانو