مرتبہ مجھ کو فنا فی العشق درکار ہے اپنے آئینے میں عکس مصطفیٰ درکار ہے
جیسا وہ فیاض ویسی تہی دامانی مِری مجھ بھکاری کو شہ ارض و سما درکار ہے
لوٹ جا عہد نبی کی سمت رفتار جہاں پھر مِری پسماندگی کو ارتقا درکار ہے
میں نے اپنی جستجو میں کتنی صدیاں کاٹ دیں میرے مولا مجھ کو اپنا ہی پتہ درکار ہے
قیمتی پوشاک میں بھی ہے برہنہ زندگی روشنی کو تیرے سائے کی قبا درکار ہے
صرف تجھ پر خرچ کرنا چاہتا ہوں زندگی ایک شب میں عمر بھر کا رت جگا درکار ہے
لے بھی لے اب ا پنی رحمت کی پناہوں میں اسے امت بیمار کو دارالشفا درکار ہے
زینہ خوشنودی حق ہیں تِرے نقش قدم پہلے وہ تیرا بنے جس کو خدا درکار ہے
ایک پل بھی ہو بہت تجھ تک پہنچنے کے لیے طے نہ جو کرنا پڑے وہ راستہ درکار ہے
بتلائے حبس دوری ہے مظفر وارثی شاہِ بطحا اس کو بطحا کی ہوا درکار ہے