مہتاب سے کِرنوں کا نہ خوشبو سے گلوں کا جو ربط تِرے نام سے ہے میرے لبوں کا
جب بھی تِرے کردار پہ دوڑاتا ہوں نظریں سرمہ سا لگاتی ہے ہوا روشنیوں کا
آہٹ ہے تِری میرے تصور سے بھی آگے کس طرح تعین میں کروں تیری حدوں کا
پتھر ہے سماعت ہی تِرے امتیوں کی لپٹے تو ہر اک سے تِری آواز کا جھونکا
اُن سُرخ دلوں کو نگہ سبز عطا کر بھائے نہ جنھیں رنگ تِری انجمنوں کا
سچائی کی دولت سے بھی بھر اُن کے خزانے معیار فقط اونچا ہے جن پستہ قدوں کا
اس ملک سے کرتا ہے بہت پیار مظفر کعبے کی طرف کردے رُخ اِس کے صنموں کا