مچی ہے دھوم تحمید و ثنا کی صدائیں آتی ہیں صَلِّ عَلٰی کی
محبت جس کو ہے خیرالوریٰ کی عنایت اس پہ ہے ہر دم خدا کی
جنہوں نے خلق کی حاجت روا کی انہیں سے ہم نے اپنی التجا کی
مدد کرنا مری اے ناصرِ خلق کہ میرے نفسِ کافر نے دغا کی
مدد کی ہر مصیبت سے بچایا دُہائی جب بھی دی شاہِ ہدیٰ کی
میں ہوں جن کا وہی ہیں میرے شافع تو پھر کیوں فکر ہو روزِ جزا کی
گنہگاروں مبارک باد تم کو وہ رکھتے ہیں محبت انتہا کی
خدا فرمائے جب قرآں میں یٰسین ثنا پھر کیا ہو دُرِّ بے بہا کی
ہیں تاباں مہر و مہ انجم درخشاں ضیا ہے عارضِ بدر الدجی کی
تمامی انبیا آئے ُمبشر خبر اول سے تھی اس مبتدا کی
شب ِ معراج جب اقصیٰ میں پہنچے رسولوں نے انہیں کی اقتدا کی
دوعالم نعمتوں سے بھر دیا ہے بھلا کچھ انتہا ہے اس عطا کی
دعائیں دے رہے ہیں دشمنوں کو یہ شانِ حلم ہے کانِ سخا کی
اسی در کے ہیں ہم منگتا بھکاری جہاں پر بھیڑ ہے شاہ و گدا کی
سمیع ناصر جن کے ہیں القاب وہ سنتے ہیں پکار اپنے گدا کی
ہیں سب ارض و سما و عرش روشن چمک ہے جلوہ ہائے جانفزا کی
کہا جَآءُ وْکَ نے آؤ یہاں پر معافی ملتی ہے ہر اِک خطا کی
تصوف چاہیے گر تجھ کو صوفی اطاعت کر امام الاصفیا کی
عطا فوراً کیا جو کچھ بھی مانگا یہاں حاجت اگر کی ہے نہ لا کی
اَزَل کے روز سے کون و مکاں میں انہیں کے نام کی نوبت بجا کی
فرشتوں نے کیا آدم کو سجدہ یہ تھی تعظیم نورِ مصطفیٰ کی
ہوا مردود لعنت کا پڑا طوق عبادت کی بھی نجدی نے تو کیا کی
کرم ان کا عنایت ہے یہ ان کی خبر لیتے ہیں مجھ جیسے گدا کی
مجھے بندہ کیا شاہِ ہدیٰ کا بڑی رحمت ہوئی ربُّ العلا کی
ہو ُمژدہ عاصیوں کو روزِ محشر صدائیں آئیں گی اِنِّیْ لَھَا کی
بدولت نقش پائے مصطفیٰ کے بڑھی عزت حریمِ کبریا کی
تمہارا آستانہ مل گیا جب مجھے خواہش ہو کیوں دارالشفا کی
ہمیشہ میں نے نافرمانیاں کیں عنایت تم نے مجھ پر دائما کی
خدا نے کرلیا محبوب اپنا خوشا قسمت محبِ مصطفیٰ کی
مری تقدیر میں لکھا ہوا ہے کرم حق کا شفاعت مصطفیٰ کی
تمہارا روئے انور دیکھتے ہی نظر آنے لگی قدرت خدا کی
یہ فرمایا شبِ اَسریٰ خدا نے کہ تیری اُمتِ عاصی رہا کی
کیا اَفلاک کو دو گام میں طے یہ تیزی ہے براقِ برق پا کی
سلاطینِ زمانہ نے بصد عجز تمہارے در پہ عرضِ مدعا کی
وہ پہنچی درجۂ مقبولیت پر تمہارا نام لے کر جو دعا کی
ابھی جی اٹھے مردے کلمہ پڑھتے ہوا پہنچے جو دامانِ قبا کی
اُٹھا کر لے گئیں حوریں جناں میں قدم پر ان کے جس نے جاں فدا کی
اندھیری رات ہے وقتِ مدد ہے گھٹا چھائی ہوئی ہے کس بلا کی
لٹا جاتا ہے جنگل میں اکیلا خدارا لو خبر اس بے نوا کی
بھنور میں پھنس گئی کشتی ہماری دوہائی ڈوبتوں کے ناخدا کی
جمیلؔ قادری تقدیر چمکی کہ خدمت مل گئی مرشد رضا کی