کیوں نہ پُھوٹے مری رگ رگ سے اُجالا تیرا اوڑھ رکّھا ہے مِرے جسم نے سایا تیرا
لگ گئی ہیں مرے چہرے پہ ہزاروں آنکھیں پڑ گیا جب سے مرے ذہن پہ پردا تیرا
رشک کرتی ہیں زمانے کی ہوائیں مُجھ پر میری شمعوں کو لیے پھرتا ہے جھونکا تیرا
کوئی آہٹ مجھے گمراہ نہیں کر سکتی ثبت ہر سانس پہ ہے نقشِ کفِ پا تیرا
تشنگی ، جب تری رحمت کو صدا دیتی ہے مرے ہونٹوں سے لپٹ جاتا ہے دریا تیرا
مَیں نے چاہا تجھے ، یہ بھی ہے نوازش تیری ورنہ ہر ایک کو صدقہ نہیں مِلتا تیرا
میری حیثیتِ اظہارِ محبّت کیا ہے چاند مشتاق تِرا ، ابر بھی پیاسا تیرا
عرشِ اعظم کی یہ تصویر بنا سکتا ہے روضہ دیکھا ہے مظفؔر نے بھی آقا تیرا