خواب روشن ہو گۓ مہکا بصیرت کا گلاب جب کِھلا شاخِ نظرپراُن کی رویت کا گلاب
گفتگو خوشبو کےلہجےمیں سکھائی آپ نے خارِ نفرت چن لیے دے کر محبت کا گلاب
خُلق کی خوشبو تمام ادوار میں رچ بس گئی! باغ ہستی میں کِھلا یوں ان کی شفقت کا گلاب
زیست کے تپتےہوۓ صحرا میں ہے وجہ سکوں اُن کی یاد، اُن کی تمنا اُن کی سیرت کا گلاب
ہرصدی ہرعہد کے گلشن کواُن کی آرزو! ہرزمانے میں کھلا ہے اُن کی چاہت کا گلاب
عطرآسودہ فضائیں کیوں نہ ہوں اس شہر کی خاکِ طیبہ کا ہراک ذرّہ ہے جنت کا گلاب
نعت لکھتا ہوں صبیحؔ ان کی عطا کےساۓ میں ہے بیاضِ نعت کا ہرشعر رحمت کا گلاب