خُدا کرے یوں بھی ہو کہ اب فکرِ دانہ دوام ہو نہ کوئی ثنائے سرکارِ دو جہاں کے سوا مجھے کام ہو نہ کوئی
اُتر کر اُس پار ، ڈُوب جاؤں میں خود میں خود کو نظر نہ آؤں ہر آدمی جانتا ہے مُجھ کو ، مگر مِرا نام ہو نہ کوئی
سماں ہو ہر وقت میرے گھر کا طلوع ہوتی ہوئی سحر کا مَیں جس کے سائے کی سلطنت میں رہوں وہاں شام ہو نہ کوئی
یہی دُعا ہے مری خُدا سے ، محمّد ؐ مصطفےٰ کے صدقے مرے وطن ‘ میری سر زمیں پر ‘ حریف اِسلام ہو نہ کوئی
سدا جو اوڑھے پھرے مظفّؔر تصوّرِ مصطفےٰؐ کی چادر اُسی میں میّت لپیٹ دینا بس اور احرام ہو نہ کوئی