خاک پر نُورِ خُدا جسم میں ڈھل کر اُترا ایک قرآنِ خَدو خال بھی ہم پر اُترا
نئے رنگوں سے مُرتّب سحرو شام ہوئے چشمِ کونَین میں بینائی کا پَیکر اُترا
کِس قدر عاجز و مسکیں تھی بلندی اُس کی کُرسی عرش لِیے غار کے اندر اُترا
اِتنی اُونچائیوں پہ نقشِ قدم ہیں کِس کے اِتنی گہرائیوں میں کون شناور اُترا
یُوں ہوئی رُوح کو محسوس محبّت اُس کی جیسے آغوش میں دریا کے سمندر اُترا
جب کبھی تن کی منڈیروں سے اُڑایا ہے اِسے طائرِ دل اُسی دیوار کے اُوپر اُترا
رحمتیں آئیں گی سو رنگ چھڑکنے کے لِیے میری توبہ کا جو چہرہ سرِ محشر اُترا
اُس کے قدموں سے تصوُّر بھی ہُوا دُور اگر یُوں لگا ، تخت سے جس طرح مظؔفّر اُترا