کمال خلاق ذات اس کی جمال ہستی حیات اس کی بشر نہیں عظمت بشر ہے مِرا پیمبر عظیم تر ہے
وہ شرح احکام حق تعالیٰ وہ خود ہی قانون خود حوالہ وہ خود ہی قرآن خود ہی قاری وہ آپ مہتاب آپ ہالہ
وہ عکس بھی اور آئنہ بھی وہ فقط بھی خط بھی دائرہ بھی وہ خود نظارہ ہے خود نظر ہے مِرا پیمبر عظیم تر ہے
شعور لایا کتاب لایا وہ حشر تک کا نصاب لایا دیا بھی کامل نظام اُس نے اور آپ ہی انقلاب لایا
وہ علم کی اور عمل کی حد بھی ازل بھی اُس کا ہے اور ابد بھی وہ ہر زمانے کا راہبر ہے مِرا پیمبر عظیم تر ہے
وہ آدم و نوح سے زیادہ بلند ہمت بلند ارادہ وہ زہد عیسیٰ سے کوسوں آگے جو سب کی منزل وہ اس کا جاوہ
ہر اک پیمبر نہاں ہے اس میں ہجوم پیغمبراں ہے اس میں وہ جس طرف ہے خدا اُدھر ہے مِرا پیمبر عظیم تر ہے
بس ایک مشکیزہ اک چٹائی ذرا سے جَو ایک چارپائی بدن پہ کپڑے بھی واجبی سے نہ خوش لباسی نہ خُوِش قبائی
یہی ہے کل کائنات جس کی گنی نہ جائیں صفات جس کی وہی تو سلطان بحرو بر ہے مِرا پیمبر عظیم تر ہے
جو اپنا دامن لہو سے بھرلے مصیبتیں اپنی جان پر لے جو تیغ زن سے لڑے نہتہ جو غالب آکر بھی صلح کرلے
اسیر و شن کی چاہ میں بھی مخالفوں کی نگاہ میں بھی امیں ہے صادق ہے معتبر ہے مِرا پیمبر عظیم تر ہے
جسے شہ شش جہات دیکھوں اُسے غریبوں کے ساتھ دیکھوں عنانِ کون و مکاں جو تھا میں کدال پر بھی وہ ہاتھ دیکھوں
لگے جو مزدور شاہ ایسا نہ زر نہ دھن سربراہ ایسا فلک نشیں کا زمین پہ گھر ہے مِرا پیمبر عظیم تر ہے
وہ خلوتوں میں بھی صف بہ صف بھی وہ اِس طرح بھی وہ اُس طرف بھی محاذ منبہ ٹھکانے اُس کے وہ سر بسجدہ بھی سر بکف بھی
کہیں وہ موتی کہیں ستارہ وہ جامعیت کا استعارہ وہ صبح تہذیب کا گجر ہے مِرا پیمبر عظیم تر ہے