جو نبی کا غلام ہوتا ہے قابلِ احترام ہوتا ہے
جو کہ خوفِ خدا سے روتا ہو قابلِ احترام ہوتا ہے
جو غمِ مصطَفٰے میں روتا ہو قابلِ احترام ہوتا ہے
جو بُرے خاتمے سے ڈرتا ہو قابلِ احترام ہوتا ہے
جودے نیکی کی دعوت اے بھائی قابلِ احترام ہوتا ہے
جو بھی اپنائے ’’مَدنی اِنعامات‘‘ قابلِ احترام ہوتا ہے
جو بھی ہے ’’قافِلوں‘‘ کا شَیدائی قابلِ احترام ہوتا ہے
جو بھی رہتا ہے ’’مَدنی حُلیے‘‘ میں قابلِ احترام ہوتا ہے
سنّتیں اُن کی جو بھی اپنائے حشر میں شاد کام ہوتا ہے
درسِ فیضانِ سنّت اے بھائی گھر میں دینے سے کام ہوتا ہے
بِھیڑ میں جیسے حجَرِ اَسوَد کا دُور سے اِستِلام ہوتا ہے
یوں ہی عُشّاق کا وطن رہ کر دُور سے بھی سلام ہوتا ہے
ہائے دُوری کو ہو گیا عرصہ کب یہ حاضِر غلام ہوتا ہے
کب مدینے میں حاضِری ہو گی جانے کب میرا کام ہوتا ہے
یا نبی یہ غلام کب حاضِر بہرِ عرضِ سلام ہوتا ہے
جو مدینے کے غم میں روئے وہ حشر میں شاد کام ہوتا ہے
جو دُرُود و سلام پڑھتے ہیں اُن پہ رب کا سلام ہوتا ہے
کیا دبے دُشمنوں سے وہ ،حامی جس کا خیرُ الانام ہوتا ہے
آزمائِش ہے اُس کی دُنیا میں جو یہاں نیک نام ہوتا ہے
جو ہو اللہ کا ولی اُس کا فیض دنیا میں عام ہوتا ہے
جی لگانے کی جا نہیں دنیا کس کو حاصِل دَوام ہوتا ہے
دارِفانی میں خوش رہے کیسے! جس کا مُردوں میں نام ہوتا ہے
موت ایماں پہ آتی ہے جس پر فضلِ ربُّ الانام ہوتا ہے
قبر روشن اُسی کی ہو جس پر فضلِ ربُّ الانام ہوتا ہے
بے سبب بخشِش اُس کی ہوجس پر فضلِ ربُّ الاَنام ہوتا ہے
بختور ہے مدینے میں جس کی عُمر کا اختتام ہوتا ہے
جس سے وہ خوش ہوں حشرمیں حاصل اُس کو کوثر کا جام ہوتا ہے
دیکھو عطارؔ کب مِرا طیبہ جانے والوں میں نام ہوتا ہے