جو بھی سرکار کا عاشقِ زار ہے اُس کی ٹھوکر پہ دولت کا انبار ہے
سلطنت سے اُسے کیا سَرَوکار ہے واسِطے اِقتِدار اُس کے بیکار ہے
جو کہ دیوانۂ شاہِ اَبرار ہے جس کا دِل اُن کی اُلفت سے سَر شار ہے
ان کی سنَّت کا جو آئنہ دار ہے بس وُہی تَو جہاں میں سمجھدار ہے
آتَشِ شوق میں کاش! جلتا رہوں اور خیالِ مدینہ میں کھویا رہوں
بس ’’مدینہ مدینہ‘‘ ہی کرتا رہوں یہ دُعا میری اے ربِّ غفّار ہے
دُور دنیا کے ہوجائیں رنج و اَلَم مجھ کو مل جائے میٹھے مدینے کا غم
ہو کرم ہو کرم یاخُدا ہو کرم! واسِطہ اُس کا جو شاہِ اَبرار ہے
آہ! عِصیاں کے طوفاں میں جانِ چمن پھنس گیا ہے سفینہ اے شاہِ زَمن
بس تمہِیں ایک اُمّید کی ہو کِرَن تم جو چاہو تو بیڑا مِرا پار ہے
رو رہا ہے یہ جو ہِچکیاں باندھ کر یاد آیا ہے اِس کو نبی کا نگر
کیا کرو گے طبیبو! اِسے دیکھ کر چھوڑ دو یہ مدینے کا بیمار ہے
میٹھے میٹھے مدینے کی مہکی فَضا ہر مسلمان کو یاالٰہی! دِکھا
اُس شہِ کربلا کا تجھے واسِطہ جو جَوانانِ جنّت کا سردار ہے
آہ! رنج و اَلَم کی نہیں کوئی حَد کام کرتی نہیں اب تو عقل و خِرَد
المدد اے مِرے رہنما المَدد پاؤں زخمی ہیں اور راہ پُر خار ہے
مجھ کو سَوزِ بِلال اور سَوزِ رضا دے دو سوزِ اُویس اور سوزِ ضِیا
واسِطہ تُجھ کو آقا اُسی غوث کا اولیا کا جو سلطان و سردار ہے
بھر کے جاتے ہیں منگتے جہاں جھولیاں بھول جاتے ہیں غم، غم کے مارے جہاں
جس جگہ دشمنوں نے بھی پائی اَماں میرے میٹھے نبی کا وہ دربار ہے
وہ حبیبِ خدا سرورِ اِنس و جاں جس کے زیرِ تصرُّف ہیں دونوں جہاں
اُس پہ قربان دل اُس پہ قربان جاں جو خدا کی خدائی کا مختار ہے
اے مقدَّر کی روٹھی ہواؤ سُنو حالِ دِل پر نہ یُوں مُسکراؤ سُنو
آندھیو! گردِشو! تم بھی آؤ سُنو مصطَفٰے میرا حامی و غمخوار ہے
ٹوٹے گو سر پہ کوہِ بَلا صَبر کر اے مُبلِّغ نہ تُو ڈگمگا صَبْر کر
لب پہ حَرفِ شِکایت نہ لا صَبر کر ہاں یِہی سُنّتِ شاہِ ابرار ہے
یاحبیبِ خدا مجھ پہ چشمِ عطا کر دو تم از پئے غوث و احمدرضا
لے کر اُمّیدِ عَفو و کرم سرورا در پہ حاضِر تُمہارا گنہگار ہے
خواہ دولت نہ دے کوئی ثَروَت نہ دے چاہے عزّت نہ دے کوئی شُہرت نہ دے
تختِ شاہی نہ دے اور حکومت نہ دے تُجھ سے عطارؔ تیرا طلب گار ہے