جب موذّن چھیڑتا ہے سلسلہ تکبیر کا تَیر جاتا ہے فضاؤں میں لہُو شبیّر کا
دِین کی بنیاد جو اپنے سروں پر رکھ گئی سِیکھ لو اُس آلِ پیغمبر سے ڈھب تعمیر کا
اُس سے پُوچھو مر کے ہو جاتے ہیں زندہ کس طرح گھونٹ ڈالا جس کی شہ رگ نے گلا شمشیر کا
گرتے گرتے بھی سنبھا لا دے گیا اِسلام کو آخری ہچکی سے کام اُس نے لِیا شہتیر کا
صبر کی ضربیں لگا کر زیدؔ کے فرزند نے توڑ ڈالا حلقہ حلقہ ظلم کی زنجیر کا
اے مرے قرآن پڑھنے والو اُس کو بھی پڑھو اِک صحیفہ وہ بھی ہے قُرآن کی تفسیر کا
کیا بصیرت تھی مظفّؔر ابنِ شہرِ عِلم کی اپنے ہاتھوں سے لِکھا ہر فیصلہ تقدیر کا