عشق تو ہے تیرا لیکن بہتیرا چاہوں اب تیری دھلیز پہ عمر بسیرا چاہوں
میں بھی اک ادنیٰ سا حسان ہوں آقا جانے کتنی سانسوں کا مہمان ہوں آقا اور اِک بار تِری گلیوں کا پھیرا چاہوں
کر دیا تو نے اتنا روشنیوں کا عادی سورج چھپتے ہی جانکلوں تیری وادی شام ڈھلے بھی اپنے گرد سویرا چاہوں
دردِ طلب رہنے دے تشنہ لبی رہنے دے لوٹ لے جو سب کچھ ، بس یادِ نبی رہنے دے ایسا کوئی خیر اندیش لٹیرا چاہوں
حجرۂ ذات میں جلتی دیکھوں شمع حرم بھی جاؤں نہ باہر تیری حدوں سے ایک قدم بھی چاروں سمت تری رحمت کا گھیرا چاہوں
اشک ندامت کی بھی اکثر پھرار ٹری ہے پھر بھی میرے اندر دُھوپ ہے اور کڑی ہے تیرا سایہ چاہوں اور گھنیرا چاہوں
حیرت سے مجھ کو ہر اک اونچائی تکے گی حد نظر بھی شاہیں بن کر دیکھ سکے گی تیرے قدموں کی پاتال میں ڈیرا چاہوں