ہمیں نسبت ہے آقاؐ سے یہ نسبت ہم کو کافی ہے محبت ہی محبت ہے معافی ہی معافی ہے
ہماری زندگانی بٹ گئی ہے دو قبیلوں میں نظر آوارہء اسباب ہے دل اعتکافی ہے
ہم ان سے پیار بھی کرتے ہیں دنیا پر بھی مرتے ہیں زباں اقرار نامہ ہے عمل وعدہ خلافی ہے
معالج کوئی اپنا اُن سے بڑھ کر ہو نہیں سکتا نظر انکی مسیحا ہے توجہ ان کی شافی ہے
سجائیں زندگی اپنی درودوں سے سلاموں سے یہی ظاہر کا صافہ ہے یہی باطن کی صافی ہے
غزل میں بھی مظفر وارثی حق بات کرتے ہیں مگر پھر بھی ہماری نعت غزلوں کی تلافی ہے