حَرفِ دُعا ہُوں صَوتِ پذیرائی دے مُجھے دیکھوں نظر کی اوٹ وُہ بِینائی دے مُجھے یادِ رسُولؐ ، پیار کی سچّائی دے مُجھے مَدحِ نبیؐ ، قرینہء گو یائی دے مُجھے کاغذ کی ناؤ ڈال رہا ہُوں بہاؤ پر تِنکا بھی پاؤں رکھنے چلا ہے الاؤ پر
مَیں اور وصفِ شاہِ پیمبر رقم کروں بادَل قلم بنے تو سمندر رقم کروں کیا کیا مَیں لَوحِ اَرض و سما پر رقم کروں دُنیا ئیں اَور ہوں تو وہ پیکر رقم کروں تا حشر اگر حیات مِری مُسترد نہ ہو اُس کی قَسم ہے اُس کے قصیدے کی حَد نہ ہو
رُخ ہے کہ آئینے میں مُصوّر سجا ہُوا آواز، جیسے نغمہ فِطرت چھِڑا ہُوا آغوش، جِس طرح درِ کعبہ کھُلا ہُوا ماتھے کی ہر لکیر پہ قُرآں لِکھا ہُوا کانپے جلالِ عرش مزاجِ حلیم سے جنّت کو راہ جائے قدِ مستقیم سے
شفقت ، جو اپنوں پہ وہی اغیار کے لِیے جُرات ، ندائے زلزلہ کُہسار کے لِیے محنت، سند غریب و جفا کار کے لِیے عظمت ، مثال ہی نہیں اظہار کے لیے پر واز ہے بہت مِری فکرِ حقیر کی پہنچے نہ گرد کو بھی خُدا کے سفیر کی
نظمِ جہاں ، بیانِ مُسلسل ، گواہ کا وقتِ رَواں ، غبار ، محمدؐ کی راہ کا مہتاب ، ایک پھُول قبائے سیاہ کا خُورشید ، اِک اُڑا ہُوا ریزہ نگاہ کا چلتی ہُوئی ہوائیں پیادے رسُولؐ کے احکامِ حق میں دیکھوں ار ادے رسُول ؐ کے
جِینا ہے درمیانِ گمان و یقیں مُجھے نا پائیداریوں پہ بھروسہ نہیں مجھے پیوند کی طرح نہ لگا لے زمیں مجھے زخمِ فراق چاٹ نہ جائے کہیں مجھے جی کھول کے مَیں رؤوں گا گنبد کے سامنے لے چل درُود مجھ کو محمّدؐ کے سامنے