Gar Humein Zauq Talab

گر ہمیں ذوقِ طلب سا رہنما ملتا نہیں راستہ ملتا نہیں اور مدعا ملتا نہیں



جھک کے مہر و ماہ گویا دے رہے ہیں یہ صدا دوسرا میں کوئی تم سا دُوسرا ملتا نہیں



اِبْتَغُوْا فرما کے گویا رب نے یہ فرمادیا بے وسیلہ نجدیو! ہر گز خدا ملتا نہیں




Get it on Google Play



ان سے امید وفا اے دل محض بیکار ہے اہل دنیا سے محبت کا صلہ ملتا نہیں



کس نے تجھ سے کہہ دیا دل بے غرض آتے ہیں وہ بے غرض نادان کوئی بے وفا ملتا نہیں



دیکھتے ہی دیکھتے سب اپنے بیگانے ہوئے اب تو ڈھونڈے سے بھی کوئی آشنا ملتا نہیں



لَو لگاتا کیوں نہیں باب شہِ کونین سے ہاتھ اٹھا کر دیکھ تو پھر ان سے کیا ملتا نہیں



تیرے میخانے میں جو کھینچی تھی وہ مے کیا ہوئی بات کیا ہے آج پینے کا مزہ ملتا نہیں



ساقیا تیری نگاہِ ناز مے کی جان تھی پھیر لی تو نے نظر تو وہ نشہ ملتا نہیں



پینے والے دیکھ پی کر آج ان کی آنکھ سے پھر یہ عالم ہوگا کہ خود کا پتہ ملتا نہیں



اخترؔ خستہ عبث در در پھرا کرتا ہے تو جز درِ احمد ا کہیں سے مدعا ملتا نہیں

Get it on Google Play

midhah-logo-grey© 2025 Midhah