دِل پہ اُن کی نظر ہو گئی مُجھ کو اپنی خبر ہو گئی
مَیں بھی مشتاقِ معراج تھا اُن کی دہلیز پر ہوگئی
اوڑھ لِیں اُن کی پرچھائیاں روشنی کِس قدر ہوگئی
رُک گئی ذہن میں اُن کی چاپ منزلِ عِشق ،سر ہو گئی
ایک ہی لمحہء قرب میں عمر ساری بسر ہو گئی
نا م لیتی رہی آپ کا بے خودی بھی ہُنر ہوگئی
وہ مِرے خواب میں آگئے میرے اندر سحَر ہوگئی
اس قدر وہ ہُوئے مہرباں میر ی توبہ نڈر ہوگئی
مرتے دَم وہ رہے سامنے مَوت بھی چارہ گر ہوگئی
بخش دے گا مظفّؔر خُدا اُن کی رحمت اگر ہو گئی