دِل کہتا ہے ہر وقت صفت اُن کی لکھا کر کہتی ہے زباں نعت محمد کی پڑھا کر
اس محفل میلاد میں اے بندۂ سرکار جب آئے دُرود اس شہِ عالم پہ پڑھا کر
خالی کبھی پھیرا ہی نہیں اپنے گدا کو اے سائلو مانگو تو ذرا ہاتھ اُٹھا کر
خود اپنے بھکاری کی بھرا کرتے ہیں جھولی خود کہتے ہیں یارب مرے منگتا کا بھلا کر
اَعدا سے جفا پر ہو جفا اور یہ دعا دیں یارب انہیں ایمان کی تو آنکھ عطا کر
کفارِ بداَطوار سے پڑھواتے ہیں کلمہ اِک چاشنیٔ لذتِ دیدار چکھا کر
اے اَبر کرم بارشِ رحمت تری ہوجائے ہو جائیں گنہگار ابھی پاک نہا کر
کیا دُور ہے سرکار مَدینہ کے کرم سے تھوڑی سی جگہ دیں ہمیں طیبہ میں بلا کر
گر ہند میں مرتا ہے کوئی عاشق صادق لے جاتے ہیں طیبہ میں مَلک اس کو اُٹھا کر
بہکاتا ہے یوں نفس کہ گھر چھوڑ نہ اپنا اِیمان یہ کہتا ہے مَدینے میں رہا کر
اے بادِ صبا اِتنا کرم بہرِ خدا کر لے جا تو مَدینے کو مری خاک اُڑا کر
جو خلد نہ چاہیں گے مَدینے کے عوض میں لے جائیں گے رِضواں اُنہیں جنت میں منا کر
ہوگا نہ اثر ہم پہ کہ ہم عبد نبی ہیں ہاں آتش دوزخ ہمیں دیکھے تو جلا کر
کیا مہر قیامت ہمیں دِکھلائے گا تیزی سرکار رکھیں گے ہمیں دامن میں چھپا کر
مجرم سہی بدکار سہی پر ہے یقیں یہ ہم خلد میں جائیں گے کہ مولیٰ کے ہیں چاکر
ہے نازوں کی پالی ہوئی یہ اُمتِ عاصی مولیٰ یہ کہیں گے کہ رِہا اس کو خدا کر
تو حشر میں اللہ نبی سے یہ کہے گا محبوب جسے چاہے تو دوزخ سے رِہا کر
ہے کون وہ دولت جو نہ دی اُن کو خدا نے وہ کون سی شے ہے جو رکھی اُن سے چھپا کر
مختار بنا کر انہیں فرمایا خدا نے جو چاہے نہ دے اور جسے جو چاہے عطا کر
یہ عزت و رِفعت کہ ہر اِک شے پہ خدا نے نام اُن کا لکھا نام سے ہے اپنے ملا کر
اللہ نے دی تیرے غلاموں کو یہ قوت مردوں کو جلا دیتے ہیں لب اپنے ہلا کر
عالم کی خبر رکھتے ہیں گر وہ تو عجب کیا بھیجا ہے خدا نے انہیں ہر علم سکھا کر
تعلیم دی اِک نام کو جبریلِ امیں نے عالم کیا اللہ نے خود ان کو پڑھا کر
آجانا مَدد کے لیے اے مَاہِ مَدینہ اَحباب چلیں قبر میں جب مجھ کو سلا کر
اِک جام مئے عشق کا بندہ کو پلا کر یا شاہِ عرب اپنی محبت میں فنا کر
یہ حکم ملا رُوحِ امیں کو شب معراج جبریل ابھی لا مرے پیارے کو بلا کر
حاضر درِ اَقدس پہ ہوئے رُوحِ مُعَظَّم اور عرض یہ کی رحمت عالم سے جگا کر
حاضر ہے براق اور ہے طالب کا تقاضا ہے حکم کہ لاؤ مرے محبوب کو جا کر
دولہا بنے تیار ہوئے صاحب معراج اور لے چلے جبریل سواری کو سجا کر
سدرہ پہ تھکے بازوئے جبریل تو آگے رَفرف نے انہیں چھوڑ دیا عرش پہ لا کر
تنہائی سے خائف ہوئے جب شاہ تو رب نے تسکین دی صدیق کی آواز سُنا کر
پھر عرش سے پار اپنے قریں ان کو بلایا سب کچھ دیا محبوب کو دِیدار دکھا کر
محبوب نے کی عرض کہ مولیٰ مری امت تو آج کی شب نارِ جہنم سے رہا کر
جانِ دوجہاں رحمت عالم پہ ہو قرباں آیا شب معراج غلاموں کو چھڑا کر
وہ روز جمیلؔ رضوی کو ہو مُیَسَّر کچھ نعت پڑھے روضہ پُرنور پہ آکر