دل ہے چوبدار، سانس ایلچی رسولؐ کی تاج و تخت سے عظیم نوکری رسولؐ کی
ابتدا و انتہا کرے طواف آپؐ کا جانے والی آنے والی ہر صدی رسولؐ کی
اُن کے در پہ جا کے ختم ہوں تمام راستے جس طرف کا رخ کروں پڑے گلی رسولؐ کی
چودہ سو برس کا فاصلہ ہے گرچہ درمیاں پھر بھی میرے سامنے ہے زندگی رسولؐ کی
دونوں مٹھیوں سے کائنات لگ رہی ہے کم یوں مری گرفت میں ہے پائنتی رسولؐ کی
ہاتھ پر ہے ہاتھ، آنکھ پاؤں کے نشان پر راستہ دکھا رہی ہے راستی رسولؐ کی
وقت کی بیاض میں اتارنے کی دیر ہے روح پر تو لکھ چکا ہوں مثنوی رسولؐ کی
مرتے مرتے جی اٹھا مظفر اُن کے نام پر پت جھڑوں میں کی وصول تازگی رسولؐ کی