درود اُس کے لیے ہے سلام اُس کے لیے خُدا کے بعد تمام احترام اُس کے لیے
مری حیات ہے مقروض اُس کی رحمت کی ہر ایک سانّس مِرا اُس کے نام اُس کے لیے
مَیں اپنے گھر میں بھی اُس کا طواف کرتا ہُوں سفر میں رکھتا ہے مُجھ کو قیام اس کے لیے
ندامتوں نے چٹا یا مجھے لہُو میرا حلال کر لِیا مَیں نے ، حرام ، اُس کے لیے
ہر اِک زبان میں اُس پر درود بھیجتا ہُوں سکوت اُس کے لیے ہےکلام اُس کے لیے
مِری طلب کی کوئی انتہا نہ ہو یارب تمام عمر رہوں نا تمام ، اُس کے لیے
اُسی کے چہرہ و گیسٗو کی بات کرتے ہیں یہ صُبح اُس کے لیے ہے یہ شام اُس کے لیے
محبّت اُس کی ٹھہر تو گئی مِرے دِل میں مگر یہ دل میں بھی ہے کمتر مقام ، اُس کیے لیے
فرشتو آؤ بھی ، لے بھی چلو مظفّؔر کو جو چاہیے تمھیں کوئی غلام ، اُس کے لیے