Dar e Jaanan Pe Fidai

درِ جاناں پہ فدائی کو اجل آئی ہو زندگی آکے جنازے پہ تماشائی ہو تیری صورت جو تصوّر میں اُتر آئی ہو پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو



نیک ساعت سے اجل عیش ابد لائی ہو درِ جاناں پہ کوئی محو جبیں سائی ہو



سنگ در پر ترے یوں ناصیہ فرسائی ہو خود کو بھولا ہوا جاناں ترا شیدائی ہو



خود بخود خلد وہاں کھنچ کے چلی آئی ہو دشت طیبہ میں جہاں بادیہ پیمائی ہو



موسم مے ہو وہ گیسو کی گھٹا چھائی ہو چشم ساقی سے پئیں جلسۂ صہبائی ہو



چاندنی رات میں پھر مے کا وہ اک دور چلے بزمِ افلاک کو بھی حسرت مے آئی ہو




Get it on Google Play



ان کے دیوانے کھلی بات کہاں کرتے ہیں بات سمجھے وہی جو صاحب دانائی ہو



مہر خاور پہ جمائے نہیں جمتی نظریں وہ اگر جلوہ کریں کون تماشائی ہو



دشت طیبہ میں چلوں چل کے گروں گرکے چلوں ناتوانی مری صد رشک توانائی ہو



گل ہو جب اخترؔ خستہ کا چراغِ ہستی اس کی آنکھوں میں ترا جلوۂ زیبائی ہو

Get it on Google Play

midhah-logo-grey© 2025 Midhah