درِ احمد پہ اب میری جبیں ہے مجھے کچھ فکر دو عالم نہیں ہے
مجھے کل اپنی بخشش کا یقیں ہے کہ الفت ان کی دل میں جاگزیں ہے
میں ہوں اور یادِ سرکارِ مدینہ یہ دنیا دل کی کس درجہ حسیں ہے
بہاریں یوں تو جنت میں ہیں لاکھوں بہارِ دشت طیبہ پر کہیں ہے
میں وصف ماہِ طیبہ کر رہا ہوں بلا سے گر کوئی چیں بر جبیں ہے
عبث جاتا ہے تو غیروں کی جانب کہ بابِ رحمت رحماں یہیں ہے
گنہگارو! نہ گھبرائو کہ اپنی شفاعت کو شفیع المذنبیں ہے
فریب نفس میں ہمدم نہ آنا بچے رہنا یہ مارِ آستیں ہے
ذرا آہستہ چل او چلے والے کہ اس جا اخترِؔ خستہ دفیں ہے
دلِ بیتاب سے اخترؔ یہ کہہ دو سنبھل جائے مدینہ اب قریں ہے