غیر اپنے ہوگئے، جو ہمارے بدل گئے نظریں بدل گئیں تو نظارے بدل گئے
کس کو سنائیے گا یہاں غم کی داستاں جو غم میں ساتھ دیتے وہ سارے بدل گئے
ڈھونڈے سے پائیے گا نہ پہلی سی مستیاں بدلی شرابِ کہنہ وہ پیالے بدل گئے
اس دورِ مصلحت میں وفا کوئی شے نہیں گا ہے ہوئے ہمارے تو گاہے بدل گئے
اخترؔ لگائیے لو نبیٔ کریم سے کیا فکر اہل دنیا جو سارے بدل گئے