تمہارے در پہ جو میں باریاب ہوجاؤں قسم خدا کی شہا کامیاب ہو جاؤں
جو پاؤں بوسۂ پائے حضور کیا کہنا میں ذرّہ شمس و قمر کا جواب ہو جاؤں
مری حقیقت فانی بھی کچھ حقیقت ہے مروں تو آج خیال اور خواب ہوجاؤں
جہاں کے قوس و قزح سے فریب کھائے کیوں میں اپنے قلب و نظر کا حجاب ہو جاؤں
جہاں کی بگڑی اسی آستاں پہ بنتی ہے میں کیوں نہ وقف درِ آنجناب ہو جاؤں
تمہارا نام لیا ہے تلاطم غم میں میں اب تو پار رسالت مآب ہو جاؤں
یہ میری دوری بدل جائے قرب سے اخترؔ اگر وہ چاہیں تو میں باریاب ہو جاؤں