بے حِسی ، راہ نُما ٹھہری ہے زندگی، خوفِ قضا ٹھہری ہے
چھِن گئیں مجھ سے مِری روشنیاں تِیرگی ، گھر کا دِیا ٹھہری ہے
اپنے ہی خُوں میں نہا کر نِکلوں چادرِ زخم ، قبا ٹھہری ہے
کِس کی زنجیر ہلاؤں جا کر اب تو فریاد، خطا ٹھہری ہے
بھُول بیٹھا ہُوں خُدا کو شاید آکے ہو نٹوں پہ دُعا ٹھہری ہے
کوئی منزل ہے نہ رستہ میرا وقت ، دیکھے نہ تماشا میرا
پیاس بڑھتی ہی چلی جاتی ہے سُو کھتا جاتا ہے دریا میرا
عکسِ اَسلاف سے شِکوہ ہے مجھے آئنہ ہو گیا دُھندلا میرا
مسجدِ رُوح میں ہوتی ہے اذاں رُخ نہیں جانبِ کعبہ، میرا
رحم، اَفلاس پہ میرے ، یارب " یا مُحمّدؐ " ہو وظیفہ ، میرا