آئے تھے ساری صبحوں کے سالار خواب میں رہتا ہوں اس کے بعد سے بیدار، خواب میں
حاضر ہوا تھا زہر گنہ میں بجھا ہوا تریاق دے گئے مرے سرکار خواب میں
سوتے میں بھی درود ہے میری زبان پر تصویر بھی ہے آئینہ بردار خواب میں
اس ایک رات کا بڑا احسان مند ہوں دروازے لیکر آگئی دیوار خوا ب میں
آنکھوں کی بھیڑ لگ گئی سارے وجود پر دیکھا جو ان کو میں نے لگاتار، خواب میں
بیداریوں کے حبس سے پیچھا چھڑا لیا گھر لے لیا ہے ایک ہوادار خواب میں
آتی ہیں انکی رحمتیں مجھ کو خریدنے لگنے لگا ہے عشق کا بازار خواب میں
کتنا کرم ہے تجھ پہ مظفر، حضورؐ کا تعمیر ہو گیا ترا کردار خواب میں