اے کاش! شبِ تنہائی میں ، فُرقت کا اَلَم تڑپاتا رہے لمحہ لمحہ الفت کی آگ کو اور بھی تُو بھڑکاتا رہے
بے تاب جگر،قلبِ مُضطَر،دے دیجئے سرور! چشمِ تر ہر وقت بھروں ٹھنڈی آہیں ،غم تیرا خون رُلاتا رہے
بے چَین رہوں بے تاب رہوں ،میں ہچکیاں باندھ کے روتارہوں یہ ذوقِ جُنوں بڑھتا ہی رہے،ہر دم یہ مجھ کو رُلاتا رہے
میں عشق میں یوں گم ہو جا ؤں ،ہر گز نہ پتا اپنا پاؤں جب جب میں تڑپ کر گر جاؤں ،تِرا دستِ عنایت اُٹھاتا رہے
جب آؤں مدینے روتا ہوا،ہو سامنے جب رَوضہ تیرا چہرے سے نقاب اُٹھ جائے اور تُو جامِ دید پلاتا رہے
بے کس ہوں شہا! میں دُکھیارا،لوگوں نے مجھے ہے دُھتکارا تُو ہَمدَم ہے پھر کیا غم ہے،گو سارا جہاں ٹھکراتا رہے
صد شکر خدایا تُو نے دیا،ہے رَحمت والا وہ آقا جو اُمّت کے رنج و غم میں ،راتوں کو اَشک بہاتا رہے
جب گرمیِ حشر ہو زَوروں پر،اُس وقت تمنّا ہے سروَر! ہم پیاس کے ماروں کو کوثر،کے جام پہ جام پلاتا رہے
ہے میر ی تمنّاربِّ جہاں ،ہر خُرد وکلاں ہر ایک جواں ہر ’’دعوتِ اسلامی‘‘ والا،سنّت کا عَلم لہراتا رہے
ہے تجھ سے دعا ربِّ اکبر! مقبول ہو ’’فیضانِ سنّت‘‘ مسجِد مسجِد گھر گھر پڑھ کر،اسلامی بھائی سناتا رہے
جب میرا یاور ہے سروَر،پھر ڈر محشر کا ہو کیو نکر! وہ حَشْر میں رُسوا کیسے کرے جو عیب یہاں پہ چُھپاتا رہے
جب تن سے جدا ہو جاں مُضطَر اُس وقت ہو جلوہ پیشِ نظر ہو قبر میں بھی سایہ گُستَر،تُو میٹھی نیندسلاتا رہے
یارب! یہ دعا عطاّرؔ کی ہے جس وقت تلک دنیا میں جئے محبوب کی سنّت عام کرے ،یہ ڈنکا دیں کا بجاتا رہے