ایک بے نام کو اعزازِ نسب مل جائے کاش مداح پیمبر کا لقب مل جائے
میری پہچان کسی اور حوالے سے نہ ہو اقتدارِ درِ سلطان عرب مل جائے
آدمی کو وہاں کیا کچھ نہیں ملتا ہوگا سنگریزوں کو جہاں جنبش لب مل جائے
کس زباں سے میں تِری ایک جھلک بھی مانگوں طلب حسن تو ہے حسن طلب مل جائے
اب تو گھر میں بھی مسافر کی طرح رہتا ہوں کیا خبر اِذنِ حضوری مجھے کب مل جائے
ایک پل کو بھی جو ہو جائے توجہ تیری عمر بھر کے لیے ملنے کا سبب مل جائے
رابطہ تجھ سے رہے پر وہ تاریکی میں دیدہ شوق کو بیداری شب مل جائے
تو اگر چھاپ غلامی کی لگادے مجھ پر مجھ گنہگار کو پروا نہ رب مل جائے
دے نہ قسطوں میں مظفر کو محبت اپنی جس قدر اس کے مقدر میں ہے سب مل جائے