افسوس وقتِ رخصت نزدیک آرہا ہے اِک ہُوک اٹھ رہی ہے دل بیٹھا جارہا ہے
دل میں خوشی تھی کیسی جب میں چلا تھا گھر سے دل غم کے گہرے دریا میں ڈوبا جارہا ہے
ہے فرقتِ مدینہ سے چاک چاک سینہ ابرِسیاہ غم کا اب دل پہ چھا رہا ہے
آنکھ اشکبار ہے اب دل بے قرار ہے اب دل کو جدائی کا غم اب خوں رُلا رہا ہے
کیوں سبز سبز گنبد پر ہو گیا نہ قرباں اے زائرِ مدینہ! تُو بھول کھا رہا ہے
افسوس! چند گھڑیاں طیبہ کی رہ گئی ہیں دل میں جدائی کا غم طوفاں مچا رہا ہے
کچھ بھی نہ کرسکا ہوں ہائے ادب یہاں کا یہ غم مرے کلیجے کو کاٹ کھا رہا ہے
اب روح بھی ہے مغموم اور جان بھی ہے حیراں بادَل غم و اَلَم کا ہر سَمت چھا رہا ہے
موت آپ کی گلی کی بہتر ہے زندگی سے ہائے مقدَّر ان کا در کیوں چھڑا رہا ہے
افسوس چل دیا ہے اب قافِلہ ہمارا ہر ایک غم کا مارا آنسو بہا رہا ہے
دل خون رو رہا ہے آنسو چھلک رہے ہیں میری نظر سے طیبہ اب چھپتا جا رہا ہے
آہ! اَلفِراق آقا! آہ! الوداع مولیٰ اب چھوڑ کر مدینہ عطارؔ جا رہا ہے